مجھے در پہ پھر بُلانا مدنی مدینے والے

مئے عشق بھی پلانا مدنی مدینے والے

مری آنکھ میں سمانا مدنی مدینے والے

بنے دل ترا ٹھکانا مدنی مدینے والے

تری جب کہ دید ہوگی جبھی میری عید ہوگی

مرے خواب میں تم آنا مدنی مدینے والے

مجھے سب ستا رہے ہیں مرا دل دُکھا رہے ہیں

تمھیں حوصلہ بڑھانا مدنی مدینے والے

مرے سب عزیز چھوٹے سبھی یار بھی تو روٹھے

کہیں تم نہ رُوٹھ جانا مدنی مدینے والے

میں اگرچہ ہوں کمینہ ترا ہوں شہِ مدینہ

مجھے سینے سے لگانا مدنی مدینے والے

ترا تجھ سے ہوں سوالی شہا پھیرنا نہ خالی

مجھے اپنا تم بنانا مدنی مدینے والے

یہ کرم بڑا کرم ہے ترے ہاتھ میں بھرم ہے

سرِ حشر بخشوانا مدنی مدینے والے

تری سادگی پہ لاکھوں تری عاجزی پہ لاکھوں

ہوں سلامِ عاجزانہ مدنی مدینے والے

ملے نزع میں بھی راحت، رہوں قبر میں سلامت

تو عذاب سے بچانا مدنی مدینے والے

مجھے آفتوں نے گھیرا، ہے مصیبتوں کا ڈیرہ

یا نبی مدد کو آنا مدنی مدینے والے

ترا غم ہی چاہے عطارؔ، اسی میں رہے گرفتار

غم مال سے بچانا مدنی مدینے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]