مزاجِ یار کیوں برہم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا

مرا بھی حوصلہ کچھ کم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا

ضرورت ہوں تو آ کر جلد اپنے خواب لے جانا

کہ پھر برسات کا موسم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا

بہت شدھ راگ، دھن نایاب اور بیتار تانیں ہیں

یہ کیسی تال ہے، کیا سم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا

مرے سیدھے سوالوں پر تاسف سے کہا اس نے

تمہاری بات ہی مبہم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا

نجانے پیڑ کی چیخیں ہیں یا ہے شور آندھی کا

ہوا کا حلقہءِ ماتم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]