من کنت مولا ، سید فخرالدین بلے کا سات صدیوں بعد نیا قول ترانہ

من کنت مولا ۔ فھذہ علی مولا

سید فخرالدین بلے کا سات صدیوں بعد نیا قول ترانہ ایک کرامت ایک تخلیقی معجزہ
——
چلے توسارے زمانے کو دنگ کر جائے
یہ کام صرف علی کا ملنگ کر جائے
سوئے نجف سے جو آتی ہے موجہ نوروز
مرے سخی وہ مجھے بھی تو رنگ کر جائے
ڈاکٹر ثروت رضوی
——
سچ تو یہ ہے کہ جیسے نجف والے مولا کا رنگ چڑھ جائے پہ پھر اس پر دنیا کا کوئ رنگ اثر نہیں کرتا۔وہ من کنت و مولا فھذا علی مولا کے قول کی عملی تفسیر نظر آتا ہے
یہ تو خیر شعر کی زبان میں رنگ کی بات ہورہی تھی لیکن رسول مکرم ص کا یہ” قول” جو ولایت امیرالمومنین ع کی دلیل ہے اور "رنگ”تصوف کی دنیا میں ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔
صوفیائے کرام کے مطابق قوالی محفل کا نام یے جس کی ابتدا رسول مکرم ص کے قول من کنت مولا سے کی جائے جبکہ پڑھت کرنے والے کو قوال کہا جاتا ہے۔
حضرت نظام الدین اولیا کی ہدایت پر ان کے مرید خاص حضرت امیر خسرو نے اس قول ترانے کی تصریحی تہذیب کا کام کیا تھا۔قوالی کے مکمل نصاب کی تکمیل کا سہرا بھی حضرت امیر خسرو کے سر ہے۔ان کے بنائے ہوئے نصاب کے مطابق قوالی کی محفل کی ترتیب یا نصاب کچھ اس طرح ہے
سب سے پہلے قول رسول مکرم
من کنت مولا
دوئم حمدِ باری تعالٰی
سوئم نعتِ رسول مقبول
چہارم منقبت مولا علی و اہلبیتِ اطہار
اور پھر صوفیائے کرام کی مدح
جبکہ آخر میں ۔۔۔۔رنگ ۔۔۔۔کی باری آتی ہے۔رنگ کے خالق بھی حضرت امیر خسرو ہی ہیں۔
لیکن حضرت امیر خسرو رح کے 700بعد جس شخصیت نے نیا، رنگ اور نیا ترانہ ترتیب دیا وہ سید فخر الدین بلے شاہ صاحب کی ذات گرامی ہے ۔بلاشبہ یہ قول ترانہ اور یہ رنگ اسی در کی عطا ہے جسے بابٍ علم کہا جاتا ہے۔یہ کام صرف علی کا ملنگ ہی کرسکتا تھا اور حضرت امیر خسرو رح کے بعد مودت سے سرشار سید فخر الدین بلے صاحب نے یہ کام کر دکھایا جو کسی کرامت سے کم نہیں ہے۔سید فخرالدین نلے صاحب نے جو، قول ترانہ اور رنگ تخلیق کیا ہے ۔۔۔اس کی تصریح یہ بتارہی ہے کہ یہ نجف، والے آقا کی عطا ہے۔یہی نہیں بلکہ سید فخر الدین بلے نے آنجناب ع کی سیرت و شخصیت پر "ولایت پناہ” کے نام سے کتاب بھی تحریر کی ہے۔ جس کی ابتدا ہی اس فارسی شعر سے ہوتی ہے
——
علی امام من است و منم غلامِ علی
ہزار جان گرامی فدائے نامِ علی
——
یہ بھی پڑھیں : سید فخرالدین بلے کا تخلیقی معجزہ , سات صدیوں بعد نیا قول ترانہ
——
سید فخر الدین بلے رنگ ِ ولایت میں رنگے اس میخانہ کے رند تھے جہاں تطہیر کے پیمانوں میں مودت کی مے تقسیم کی جاتی ہے۔جو اس رنگ میں رنگ جائے اس پر دنیا کا رنگ نہیں چڑھتااور نہ ہی جچتا ہے۔
——
(ڈاکٹر ثروت رضوی صاحبہ ۔ امریکہ ۔کی تحریر سے اقتباس)
——
ڈاکٹر ثروت رضوی ۔ امریکہ ۔ ۔( در علم پر دستک۔ کی خالق۔ شاعرہ ٕ اہل بیت اطہار ع ۔ ممتاز مذہبی اسکالر ۔ مقبول و معروف ذاکرہ ۔ سابق مدیرہ ماہنامہ ۔ قومی زبان ۔ کراچی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

حضرت خواجہ غلام فرید (1845 تا 1901)

سلسلہء چشتیہ کے شیخِ طریقت اور صوفیانہ رنگی میں ڈھلی سرائیکی شاعری کی اصل پہچان حضرت خواجہ غلام فرید بہاولپور کے قصبے چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے. نسب کے لحاظ سے آپ قریشی فاروقی ہیں. والد خواجہ خدا بخش بھی اپنے زمانے کے صوفی بزرگ تھے. آپ کا تاریخی نام خورشید عالم رکھا گیا مگر والدہ […]

حضرت بابا بُلھے شاہ (1680 تا 1757)

مشرق کے عظیم انقلابی صوفی شاعر حضرت بابا بُلھے شاہ اوچ گیلانیاں(ریاست بہاولپور) کے سید خاندان کے شاہ محمد درویش کے ہاں پیدا ہوئے جو عربی، فارسی اور علومِ قرآنی کے بڑے عالم تھے. والد نے آپ کا نام عبداللہ رکھا جس سے بُلھا شاہ یا بابا بُلھے شاہ مشہور ہو گیا. آپ کے والدین […]