میری زندگی کا تجھ سے یہ نظام چل رہا ہے

ترا آستاں سلامت مرا کام چل رہا ہے

نہیں عرش و فرش پر ہی تری عظمتوں کے چرچے

تہ خاک بھی لحد میں ترا نام چل رہا ہے

وہ تری عطا کے تیور، وہ ہجوم گرِد کوثر

کہیں شورِ مَے کشاں ہے کہیں جام چل رہا ہے

کسی وقت یا محمد کی صدا کو میں نہ بھُولا

دمِ نزع بھی زباں پر یہ کلام چل رہا ہے

مرے ہاتھ آگئی ہے یہ کلید قُفلِ مقصد

ترا نام لے رہا ہوں مرا کام چل رہا ہے

کوئی یاد آ رہا ہے مرے دل کو آج شاید

جو یہ سیل اشکِ حسرت سرِ شام چل رہا ہے

وہ برابری کا تُو نے دیا درس آدمی کو

کہ غلام ناقََہ پر ہے تو امام چل رہا ہے

ترے لطف خسروی پر مرا کٹ رہا ہے جیون

میرے دن گزر رہے ہیں میرا کام چل رہا ہے

مجھے اس قدر جہاں میں نہ قبول عام ملتا

ترے نام کے سہارے مرا نام چل رہا ہے

تری مہر کیا لگی کہ کوئی ہنر نہ ہوتے

مری شاعری کا سکہ سرِ عام چل رہا ہے

میں ترے نثار آقا ! یہ حقیر پر نوازش

مجھے جانتی ہے دنیا مرا نام چل رہا ہے

ترا اُمتی بس اتنی ہی تمیز کاش کر لے

وہ حلا ل کھا رہا ہے کہ حرام چل رہا ہے

کڑی دھوپ کے سفر میں نہیں کچھ نصیر کو غم

ترے سایہ کرم میں یہ غلام چل رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]