وہ جب سے بدگمان و سرگراں معلوم ہوتے ہیں

ہمیں بے کیف سے کون و مکاں معلوم ہوتے ہیں

وہ رگ رگ میں مری روحِ رواں معلوم ہوتے ہیں

نظر آئیں نہ آئیں دلستاں معلوم ہوتے ہیں

اِدھر ذرے ہیں تابندہ، اُدھر تارے درخشندہ

ترے جلوے زمیں تا آسماں معلوم ہوتے ہیں

مرے قصے میں ضمناً آ گئے تھے تذکرے ان کے

وہی وجہِ فروغِ داستاں معلوم ہوتے ہیں

وہی آغازِ ہر عنواں وہی انجامِ ہر عنواں

وہی ہر داستاں کے درمیاں معلوم ہوتے ہیں

بڑا ہی شور برپا ہے غزل خواں کون ہے ایسا

سرِ محفل نظرؔ رطب اللساں معلوم ہوتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]