پیدا ہر ایک پیچ میں اک بات ہو گئی

کل شب وہ زلف حرف و حکایات ہو گئی

وقفِ امورِ خیر رہی سرزمینِ دل

بت خانہ اٹھ گیا تو خرابات ہو گئی

پہنچے جو بے خودی کے مراتب کو حسن و عشق

دونوں میں رات بھر کو مساوات ہو گئی

اپنے محیطِ ذات میں گُم ہو گئے جو ہم

اک ذاتِ بے کراں سے ملاقات ہو گئی

کیا کیا نہ شب کسی کی نظر میں تھا جزر و مد

دنیا ابھی تھی نفی کہ اثبات ہو گئی

میخانے سے چلی تھی کوئی بے خودی کی بات

آ کر حرم میں کشف و کرامات ہو گئی

اُتری نہ تھی سبُو میں تو کچھ بھی نہ تھی شراب

اُتری سبُو میں معرفتِ ذات ہو گئی

آئی نہ عاشقی میں فراست بروئے کار

بے کار دولتِ نظریات ہو گئی

دن بھر تو تھی قضا کے حوالے عنانِ وقت

شب کو سپردِ رندِ خوش اوقات ہو گئی

کنجِ گل و سمن سے نہ اٹھے قدح گُسار

جب تک کسی سے طے نہ کوئی بات ہو گئی

آیا جو تذکرے میں جہنم کے میرا نام

حُوروں کو آرزوئے ملاقات ہو گئی

خورشید کا ہیولیٰ ءِ منفی تھا میرا جام

جب طاق سے طلوع ہوا رات ہو گئی

سوداؔ کی ہو زمیں کہ ولیؔ کی زمیں ظفرؔ

میں نے غزل کہی تو خرابات ہو گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]