کچھ اور نہ بن پائے بھلے شہر بدر سے

دل بیل کی مانند لپٹ جائے گا در سے

پہنچا ہوں کسی اور ہی دنیا میں کہیں پر

لوٹا ہوں کسی اور زمانے کے سفر سے

ناقابلِ تشریح تھی رفتار قضا کی

آنکھیں ہی فقط موند سکا موت کے ڈر سے

اب ترکِ تمنا کی وہ منزل ہے جہاں پر

شکوہ بھی نہیں کوئی دلِ سوختہ سر سے

روتا ہے جو خاموش دریچوں سے لپٹ کر

نکلا تھا کسی خواب کی آواز پہ گھر سے

مجمع جو لگاتا ہے تجھے بیچنا کیا ہے

پوچھوں تو سہی آج دلِ شعبدہ گر سے

ائے غنچہِ نوخیزِ خیابانِ وفا ، تو

محفوظ رہے کاش مرے عشق کے شر سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]