کیا یہ غمِ جاناں کا تو اعجاز نہیں ہے

اب دل پہ کوئی غم اثر انداز نہیں ہے

مونس کوئی ہمدم کوئی دم ساز نہیں ہے

کیا بات کریں جب کوئی ہم راز نہیں ہے

مائل بہ کرم ہیں وہ مرے حال پہ اب بھی

نظروں کا وہ پہلا سا پہ انداز نہیں ہے

دنیا طلبی حد سے بڑھی جاتی ہے لیکن

دیں کے لیے اب کوئی تگ و تاز نہیں ہے

اللہ رے خاموشیِ رفتارِ زمانہ

گزرا ہے مگر کوئی بھی آواز نہیں ہے

فطرت کے عناصر تو ہم آواز ہیں میرے

کیا غم جو کوئی اور ہم آواز نہیں ہے

چلتے ہوئے کہتا ہے نظرؔ کچھ یہ زمانہ

انساں ہی مگر گوش بر آواز نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]