گفتگو کب ھے کام اُداسی کا

گہری چُپ ھے کلام اُداسی کا

خاص آنکھیں عطا ھوئی ھیں تُجھے

چھوڑ دے رنگ عام اُداسی کا

قہقہوں سے لدے پھندے ھوئے شخص

تُجھ کو پہنچے سلام اُداسی کا

دل میں تو یُونہی آتی جاتی ھے

روح میں ھے قیام اُداسی کا

آج برسوں کے بعد آیا ھے

اُس گلی سے پیام اُداسی کا

دھیان کے پائیں باغ میں کل شب

دیدنی تھا خرام اُداسی کا

میرے لہجے میں تازہ رھتا ھے

ذائقہ صبح و شام اُداسی کا

کُود جائے گی ایک دن چھت سے

کھیل ھوگا تمام اُداسی کا

با وضُو ھو کے روئیے، صاحب

کیجیے احترام اُداسی کا

راہ تھی مُسکراھٹوں کی مگر

خوف تھا گام گام اُداسی کا

پیاس کے ساتھ خوش رھُوں گا مَیں

توڑ ڈالوں گا جام اُداسی کا

اک مکمل علاج ھے تو سہی

آپ کی ناتمام اُداسی کا

عشق کے دیوتا نے بخشا ھے

ایک داسی کو نام اُداسی کا

تج دیا تاج ایک دن یُونہی

بادشہ تھا غلام اُداسی کا

آ ، محبت کے معنی سمجھاؤں

یہ بھی ھے ایک نام اُداسی کا

بڑی حسّاس سی ھے، رو دے گی

ایسے پلّو نہ تھام اُداسی کا

ایک ھنس مُکھ کی دید سے، فارس

ھوگیا اھتمام اُداسی کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]