آئی صبا ہے کاکلِ گل کو سنوار کے

پھولوں کے رُخ کو آ گئی شبنم نکھار کے

اِس کار گاہِ زیست کا ہے منتظم وہی

دیکھو بغور کام یہ پروردگار کے

اُس کے کرم سے وقت گزرتا ہے اِس طرح

عادی ہوئے ہیں گردشِ لیل و نہار کے

سجدے میں سر جھکائے ہیں نجم و شجر، حجر

نغمے اُسی کی حمد میں ہیں آبشار کے

چاہے تو ایک اشکِ ندامت پہ بخش دے

کیا سمجھے کوئی راز اُس آمرزگار کے

پائے گا بالیقیں اُسے شہ رگ سے بھی قریب

دیکھے تو کوئی مرکزِ دل سے پکار کے

اے پھول ! خشک پتّے وہاں سے نکل گئے

جھونکے چمن میں آئے جو بادِ بہار کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]