آتا نہیں ہے سوچ کے اب تو یقیں کبھی

عریاں بھی ہو چکا ہے وہ خلوت نشیں کبھی

ہم نے بھی حالِ دل پہ قناعت قبول کی

اس نے بھی دل کو لَوٹ کے پوچھا نہیں کبھی

گرنے لگا ہے روز ہی ہاتھوں سے کچھ نہ کچھ

نایاب آسمان تو غائب زمیں کبھی

ابھرے ہیں نقشِ پاء میں کبھی ہونٹ بن کے ہم

متی میں جذب ہو گئے ہو کر جبیں کبھی

پہنچے ہو تم محال سے ناممکنات تک

دل پھر بھی ڈھونڈتا ہے کہ شاید، کہیں ، کبھی

اب کون مانتا ہے کہ خانہ بدوش ہم

اس کے مکانِ دل کو رہے تھے مکیں کبھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]