آدمیت کا حق ادا نہ ہوا

خوب ہے آدمی خدا نہ ہوا

جان دی، سر دیا ہے، کیا نہ ہوا

وہ مگر قائلِ وفا نہ ہوا

لاج رکھ لی ہے ضبطِ گریہ نے

مشتہر غم کا ماجرا نہ ہوا

شکوۂ غیر کس زباں سے کریں

دل مرا ہو کے جب مرا نہ ہوا

ظلم کو پھر اٹھا ہے دستِ یزید

اف حسینؓ ابنِ فاطمہؓ نہ ہوا

بارِ غم اٹھے اس قدر کیونکر

دل بھی سینے میں دوسرا نہ ہوا

نالۂ درد عرش تک پہنچا

دل مگر موم آپ کا نہ ہوا

نغمۂ عندلیب و باغ و بہار

کوئی منظر بھی دل کشا نہ ہوا

روز اس در پہ حاضری ہے نظرؔ

لیکن اس سے خلا ملا نہ ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]