آسماں مجھ سے خفا ہے کہ زمیں رکھتا ہوں

میں خدا کی طرح انساں پہ یقیں رکھتا ہوں

مجھ سے خوش ہیں میری دھندلائی ہوئی تعبیریں

کم سے کم خواب تو آنکھوں میں حسیں رکھتا ہوں

میری اس خوبی کو کیوں عیب کہا جاتا ہے

چیزیں جس خانے کی ہوتی ہیں وہیں رکھتا ہوں

اک تعلقات ہے وضو سے بھی سبو سے بھی مجھے

میں کسی شوق کو پردے میں نہیں رکھتا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]