آسماں ہی سے مگر خون بہایہ نہ گیا

آسماں ہی سے مگر خون بہایا نہ گیا

ورنہ محبوب کو کس روز ستایا نہ گیا

بارہا میرے قدم راہِ وفا سے بھٹکے

پھر بھی سر سے میرے سرکار کا سایا نہ گیا

زندگی کیسے اندھیروں سے نکل پائے گی

دیپ گر عشقِ محمد کا جلایا نہ گیا

عین ممکن ہے کہ مر جائے گا یہ فرقت میں

اس بھکاری کو مدینے جو بلایا نہ گیا

لوحِ احساس پہ روشن ستارہ بن کر

منظرِ عشق نگر دل سے مٹایا نہ گیا

بھول بیٹھا جو درود آپ پہ پڑھنا آقا

اس کے تاریک مقدر کو جگایا نہ گیا

بنتِ زہراؑ تیرے خطبوں نے عجب کام کیا

قتلِ شبیرؑ یزیدوں سے چھپایا نہ گیا

عمر بھر نعت کی آیات جمع کرتا ریا

مجھ نکمے سے تو کچھ کمایا نہ گیا

لوٹ آیا ہے مدینے سے بدن تو مظہر

پر مری روح سے واپس کبھی آیا نہ گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]