آنکھوں میں ہوں سراب تو کیا کیا دکھائی دے

پانی کے درمیان بھی صحرا دکھائی دے

بینائی رکھ کے دیکھ مری، اپنی آنکھ میں

شاید تجھے بھی درد کی دنیا دکھائی دے

دنیا نہیں نمائشِ میکانیات ہے

ہر آدمی مشین کا پرزہ دکھائی دے

آدم غبارِ وقت میں شاید بکھر گیا

حوّا زمینِ رزق پہ تنہا دکھائی دے

ق

جس انقلابِ نور کا چرچا ہے شہر میں

مجھ کو تو وہ بھی رات کا حربہ دکھائی دے

نکلو تو ہر گلی میں اندھیرے کا راج ہے

دیکھو تو کچھ گھروں میں اُجالا دکھائی دے

شطرنج ہے سیاست دوراں کا کھیل بھی

حاکم بھی اپنے تخت پہ مہرہ دکھائی دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]