آنگن آنگن شمعِ خیالِ یار جلے

رات آئی اور لوگ ستارہ وار جلے

اس بستی کی رات بھی کتنی روشن ہے

بجھ جائیں گر دیپ تو پہرے دار جلے

دن بھر گہرا سناٹا رہتا ہے مگر

شب بھر ایک چراغ پسِ دیوار جلے

کشتی سے یہ کس کا عکس اتر آیا

ماہی گیر کے ہاتھوں میں پتوار جلے

میں تنہا ہر پیڑ سے مل کر روؤں جمال

چاند اکیلا دریا کے اُس پار جلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]