ائے چشمِ ناشناس ، ترا گلہ ، کہ تو

واقف کہاں رہی تھی جمالِ جنون سے

ائے عہدِ ناسپاس ، تجھے کیا کہیں کہ ہم

خود بھی دھواں دھواں تھے کمالِ جنون سے

ائے وائے انحطاطِ تمنا ، یہ حال ہے

ہوتے ہیں شرمسار ، سوالِ جنون سے

ہم کہ سوارِ ناقہِ وحشت ہوئے ، سو ہم

رستوں میں کھو گئے ہیں زوالِ جنون سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ہے داستان فقط ساتویں سمندر تک

یہ واقعہ ہے مگر آٹھویں سمندر کا جہانِ شوق کی معلوم سرحدوں سے پرے مہیب دھند میں ڈر آٹھویں سمندر کا سفینے سو گئے موجوں میں بادباں اوڑھے کھلا ہے بعد میں در آٹھویں سمندر کا وہ سند باد جہازی ہوں جس کو ہے درپیش قضاء کے ساتھ سفر آٹھویں سمندر کا

آج پھر سے دلِ مرحوم کو محسوس ہوا

ایک جھونکا سا کوئی تازہ ہوا کا جیسے مہرباں ہو کے جھلستے ہوئے تن پر اترا سایہِ ابر ، کہ سایہ ہو ہُما کا جیسے نرم لہجے میں مرے نام کی سرگوشی سی زیرِ لب ورد ، عقیدت سے دعا کا جیسے ہاتھ جیسے کوئی رخسار کو سہلاتا ہو دل نے محسوس کیا لمس بقا […]