ائے کم نصیب زعمِ محبت ، ہلاک ہو

خود بھی شکست یاب یوا ، مجھ کو بھی کیا

ائے کہ اجل رسید وفا کے یقین ، جا

تو خآنماں خراب ہوا ، مجھ کو بھی کیا

تجھ کو کہا نہ تھا کہ بڑے بول، بول مت

اب خود بھی لاجواب یوا ، مجھ کو بھی کیا

وہ جو غرور تھا مری پہچان تھا وہی

ایسا گیا کہ خواب یوا ، مجھ کو بھی کیا

عریاں مری وفا کا تقدس ہوا کہ تو

جس وقت بے حجاب یوا ، مجھ کو بھی کیا

خوابوں کو پیاس مار گئی ، عشق کے بھرم

تو تو چلو سراب یوا ، مجھ کو بھی کیا

رکھا تھا مشکلوں سے بھرم دل کا ، پر کوئی

جس وقت بے نقاب یوا ، مجھ کو بھی کیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]