ابتداء حضور ہیں انتہا حضور ہیں

مقتدی ہیں انبیا مقتدأ حضور ہیں

پوری آب و تاب سے ساری کائنات میں

جو کرے ہے روشنی وہ دیا حضور ہیں

باقی سب فریب ہے اور سارا جھوٹ ہے

زندگی گزارنے کا ضابطہ حضور ہیں

جب نہ تھے ملائکہ اور نہ کائنات تھی

حرفِ کُن سے قبل کا واقعہ حضور ہیں

اُن کے دم سے رحمتیں عام ہیں جہان میں

رب کی رحمتوں کا ایک سلسلہ حضور ہیں

آصفِ حزیں نہ ڈر اُن پہ تو یقین کر

عاصیوں کا حشر میں آسرا حضور ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]