اب اجازت ہے کہ ہر شخص کہے چھوڑ دیا

جس نے چھوڑا مجھے، میں نے بھی اسے چھوڑ دیا

اتنا کافی ہے کہ میرا تھا تو بس میرا تھا

اب کسی اور کا ہے بھی تو رہے، چھوڑ دیا

گھر بھی، دفتر بھی، محبت بھی، سخن دانی بھی

اس سے کچھ بن نہیں پایا تو مجھے چھوڑ دیا

میں کہوں یا نہ کہوں یاد تو آتی ہے مجھے

تو نے چاہا بھی تو کتنا تھا، بھلے چھوڑ دیا

مجھ کو روتے ہوئے یوں چھوڑ کے جانے والے

تو مجھے چھوڑ کے روئے گا، کسے چھوڑ دیا

عشق گر یار کی مرضی ہے تو جا یار مرے

تیرے کہنے پہ تمناّ نے تجھے چھوڑ دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]