اب بھی ہے یاد مجھ کو پہلی لگن کا جادُو

سر چڑھ کے بولتا تھا اُس کے بدن کا جادُو

قامت تھی یا قیامت، شُعلہ تھا یا سراپا

پھیکا تھا اُس کے آگے سرووسمن کا جادُو

آنکھوں میں تیرتے تھے ڈورے سے رتجگوں کے

انگڑائی میں گُھلا تھا میٹھی تھکن کا جادُو

کلیوں کے جیسے کومل تھے ہاتھ پاؤں اُس کے

غُنچوں کو چھیڑتا تھا اُس کے دہن کا جادُو

وہ سر سے پاؤں تک تھا مر مر کا بُت مکمل

بڑھتا تھا اُس کو چُھو کر ہر پیرہن کا جادُو

کاجل بِنا تھی آنکھیں، لالی بغیر لب تھے

یہ سادگی کا افسوں، وہ بھولپن کا جادُو

پہلے رہا تھا کُچھ دن انکار اُن لبوں پر

پھر چل گیا تھا میرے دیوانہ پن کا جادُو

گر سچ کہوں تو فارس وہ شخص عام سا تھا

چمکا گیا تھا اُس کو میرے سُخن کا جادُو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]