اب ترکِ آرزو ہی مناسب ، کہ آرزو

اس عہدِ ناشناس میں شرمندگی ہوئی

سمجھے گئے فنون ، ہوس کی حکائیتیں

رسوائیوں کا رزق مری شاعری ہوئی

تیری ذہانتوں نے بچا لی ہے لاج ، اور

عریاں بیان ہو کے مری سادگی ہوئی

مٹی میں مل گئی ہے بصد عجز آخرش

وہ جو جبین تھی ترے در پر دھری ہوئی

خواہش عجیب تھی کہ ترے رنگ دیکھتے

اپنے اڑے جو رنگ تو حالت بری ہوئی

مغرور ہو چلے تھے گئے وقت کے خدا

اوقات کھل گئی تو ندامت بڑی ہوئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]