اب نوکِ زباں نعتِ رسولِ مدنی ہے

قربان لبوں پر مرے شیریں سخنی ہے

دندان مبارک ہے کہ دُرِّ عَدَنی ہے

اس زلف کی خوشبو ہے کہ مشکِ ختنی ہے

نوکِ مژۂ چشم وہ برچھی کی انی ہے

ابروئے خمیدہ وہ کماں جیسے تنی ہے

ہے دوش پہ کملی کبھی چادر یمنی ہے

حُسن آفریں ہر حال تری گُلبدنی ہے

خالق سے سرِ عرش بریں ہم سخنی ہے

کیا اوجِ شرف آپ کا اللہُ غنی ہے

اے صلِّ علیٰ سیرتِ اطہر ہے کہ قرآں

صورت وہ خوشا نور کے سانچے میں بنی ہے

اقصیٰ میں رسولانِ گرامی کی امامت

سردارِ رُسل آپ کو کہتے ہی بنی ہے

ظلمت کدۂ دہر میں پھیلا ہے اُجالا

نقشِ کفِ پا کی ترے جلوہ فگَنی ہے

سیرت کا یہ پہلو بھی طرحدار ہے کتنا

دی اس کو معافی کہ جو گردن زدنی ہے

رنگینیِ دنیا سے نظرؔ دل نہیں مسحور

غالب اثرِ رنگِ بہارِ مدنی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]