اب کچھ بساطِ دستِ جنوں میں نہیں رہا

میرا قیام ، شہرِ فسوں میں نہیں رہا

اُس کی حِنا بنے کہ بھلے رزقِ خاک ہو

وہ خون جو کہ میری رگوں میں نہیں رہا

ہو منتشر دھوئیں میں کہ رقصاں ہوا میں ہو

شعلہ ہوا خیال ، حدوں میں نہیں رہا

بڑھنے لگی زمین مری سمت جس طرح

شاید مرا وجود پروں میں نہیں رہا

ڈھونڈو مرے سراغ کہیں کشتگان میں

میں لوٹتے ہوؤں کی صفوں میں نہیں رہا

گُل کر دیے گئے میری آنکھوں کے قمقمے

یا واقعی وہ چاند شبوں میں نہیں رہا

لے دے کے چند ایک ہی موسم نصیب تھے

تُو اُن ہی دستیاب رُتوں میں نہیں رہا

عبرت سرائے دہر میں عُریاں کھڑا ہوں میں

اہرام تھا ، زمیں کی تہوں میں نہیں رہا

بوسے پہ جاگتا نہیں ، سویا ہوا محل

یہ وصف ، نامراد لبوں میں نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]