اتنا پڑا ہے جسم پر گردوغبارِ عشق

میں دب کے رہ گیا ہوں کہیں زیرِ بارِ عشق

کچھ قافیوں کے پھل لگے کچھ لاحقوں کے پھول

ٹہنی غزل کی دینے لگی برگ و بارِ عشق

یہ میرا معترف تھا کبھی معتقد بھی تھا

بھرتا ہے کان آج کل جو میرے بارے عشق

تم صرف فائدے میں رہو میرے حصے دار؟

ایسے کہاں چلا ہے کبھی کاروبارِ عشق؟

قدرت ہزاروں سال تلک ڈھونڈتی ہے پھر

مجھ پر ہی ڈال دیتی ہے ہر بار بارِ عشق

آ عشقِ ناتمام! تُو میری دعائیں لے

سنتا ہے عشق آہِ دلِ اشکبارِ عشق

جا میرا نام لیجؤ، کرنے لگے گی پیار

قائم ہے تیرے بھائی سے ہی اعتبارِ عشق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]