اتنا ہی میرا کام تھا ، بستی سے جاؤں میں

کوئی سنے تو آخری قصہ سناؤں میں

دریا عبور کرنے کو چھاؤں اجاڑ دوں

پاگل ہوں ؟ پیڑ کاٹ کے ناؤ بناؤں میں

اے گریہ زار زندگی کچھ دیر معذرت

میرا بھی دل کیا ہے ، ذرا مسکراؤں میں

رکھ لے کسی کباڑ کے مانند اپنے پاس

شاید برے دنوں میں تیرے کام آؤں میں

ترک تعلقات ترا مشغلہ ہے اور

تجھ جیسے شخص کے لئے آنسو بہاؤں میں ؟

مر جائے ، جان چھوڑ دے اچھے دنوں کی یاد

رکھنے لگی ہوں یاد کی گردن پہ پاؤں میں

یہ لوگ چاہتے ہیں مری عمر ہو قلیل

یہ لوگ چاہتے ہیں تجھے بھول جاؤں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]