احساسِ ہر گناہ و خطا کون لے گیا

دل سے متاعِ خوفِ خدا کون لے گیا

اس شہرِ دل سے نور و ضیا کون لے گیا

سوءِ عمل ہے اور بھلا کون لے گیا

کیفِ جمال و کیفِ ادا کون لے گیا

رنگیں تری ردائے حیا کون لے گیا

ہمدم مرے بدل دے یہ لکھا نصیب کا

ہے تیرے پاس دستِ دعا کون لے گیا

پیدا نہیں ہے اب تو ذرا بھی گداز دل

سوزِ نوائے نغمہ سرا کون لے گیا

دل نے اٹھائے رنج تو آنکھوں میں اشک ہیں

محنت کسی کی اور صلہ کون لے گیا

پوچھو نہ جانتے ہو گر امواجِ نیل سے

فرعون کا غرورِ انا کون لے گیا

مہرِ سکوت لب پہ لگی ہے ترے نظرؔ

تجھ سے ترا خروشِ نوا کون لے گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]