ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا

میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی

میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری

ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی

میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی

میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید

میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے

میرا اظہارِ محبت بھی ہوس ہو شاید

عین ممکن ہے کہ میں کھیل رہا ہوں تم سے

عین ممکن ہے ترے فہم نے سمجھا سچ ہو

حق بجانب ہیں ترے خوف ترے اندیشے

عین ممکن ہے ترے علم میں آدھا سچ ہو

کیا بڑی بات ہے گر میرا جنوں میرا مزاج

میرا اخلاص ، مرا عشق بھی عیاری ہو

یہ بظاہر جو زمانے سے جدا ہے فطرت

یہ کسی اور ہی درجے کی اداکاری ہو

شرمساری سے گزرتی ہے تری سادہ دلی

جب بھی اٹھتی ہیں تری سمت سخن کی نظریں

عین ممکن ہے کہ عریاں ہی تجھے دیکھتی ہوں

جس قدر تشنہِ دیدار ہیں فن کی نظریں

عین ممکن ہے سرِ بزمِ زمانہ کچھ بھی

ایک "​ممکن”​ سے پرے ایک نیا "​ممکن”​ ہے

اور پھر جذبہ وحشت کی یہ شدت کہ جسے

خود نہیں علم کہ کس بات پہ کیا ممکن ہے

سو یہ اندازہ و اندیشہ و اوہام و گماں

بے ثباتی سے عبارت ہیں مگر ثابت ہیں

اب وہ منظر ہے سرِ پردہِ سیمیں ، جس میں

دو ہی کردار خلاؤں میں کہیں ساکت ہیں

ایک میں ہوں کہ جو ظاہر ہوں بہر طور تجھے

اور اک تو کہ مجھے مجھ سے سوا جانتا ہے

یہ جو افسانوی دنیا ہے، مرا وہم سہی

میں اسی وہم کو جیتا ہوں ، خدا جانتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]

ملّی نغمہ

نظر نواز طرب آفریں جمیل و حسیں خوشا اے مملکتِ پاک رشکِ خلدِ بریں سلام تجھ کو کریں جھک کے مہر و ماہِ مبیں تو دینِ مصطفوی کا ہے پاسبان و امیں ترے وجود پہ نازاں ہیں آسمان و زمیں ستارہ اوجِ مقدر کا زینتِ پرچم ہلالِ نو ہے نویدِ خوشی لئے ہر دم ہے […]