ازل سے نقش دل ہے ناز جانانہ محمد کا

کیا ہے لوح نے محفوظ افسانہ محمد کا

بنا ہے مہبط جبرئیل کاشانہ محمد کا

اب افسانہ خدا کا ہے ہر افسانہ محمد کا

ڈرے کیا آتش دوزخ سے دیوانہ محمد کا

کہ اٹھے شعلے گل کرتا ہے پروانہ محمد کا

ظہور حال و مستقبل سے ماضی کو ملا دوں گا

مجھے پھر آج دہرانا ہے افسانہ محمد کا

رسائی کب ہے اس تک ہوش انساں عقل قدسی کی

جو اپنی رو میں بک جاتا ہے دیوانہ محمد کا

دوئی اک داغ تہمت غیریت الزام بے معنی

وہ اپنا ہے جسے اپنائے یارانہ محمد کا

شفاعت کی دعا میں وہ ہوا دیتے ہیں پر اس کے

جہنم کو بجھا سکتا ہے پروانہ محمد کا

یہاں سے تا بہ جنت روک ہے کوئی نہ پرسش ہے

جہاں چاہے چلا جا بن کے پروانہ محمد کا

شعاع اس پار شیشے کے نظر اس پار شیشے کے

جھلک دیکھی کہ پہنچا اڑ کے پروانہ محمد کا

درود اول سخن ہو آرزوؔ پھر شعر نعتیہ

زباں دھو ڈال اگر کہنا ہے افسانہ محمد کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]