از ازل تا بہ ابد اُن کے نگر سے فیضیاب

سارا عالم ہو رہا ہے اُن کے گھر سے فیضیاب

آپ ہی کی ہے عنایت آپ ہی کا ہے کرم

آرہے ہیں ہو کے سب بابِ اثر سے فیضیاب

آپ جن راہوں سے گزرے خُلد کی راہیں بنیں

حشر تک ہوں گے سبھی اُس رہ گزر سے فیضیاب

کوئے طیبہ کے مکیں ہیں بخت کے ایسے دھنی

روز ہوتے ہیں سدا شام و سحر سے فیضیاب

خوش نصیبی پھر سے لے جائے گی ہو کر آؤں گا

مسجدِ آقا کے ہر دیوار و در سے فیضیاب

غزوۂ بدر و اُحد میں آپ کے سب جانثار

آپ کے صدقے ہوئے فتح و ظفر سے فیضیاب

روزِ اوّل سے کھلا ہے اُن کا دربارِ عطا

کون ہے جو ہے نہیں آقا کے در سے فیضیاب

کربلا والوں کا صدقہ بانٹتے ہیں وہ سدا

سب زمانہ ہے نبی کے سیم و زر سے فیضیاب

پھر بلا لیجیے درِ اقدس پہ خاکیؔ کو حضور

پھر سے ہو جاؤں گا طیبہ کے سفر سے فیضیاب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]