اسے زما نہ بڑے ہی ادب سے ملتا ہے

اسے زمانہ بڑے ہی ادب سے ملتا ہے

وہ جس کا شجرہ تمہارے نسب سے ملتا ہے

ہمای فکر میں اپنا کوئی ہنر ہی نہیں

ہمیں تو لفط بھی تیرے سبب سے ملتا ہے

بہارِ ورد کو ہوتی ہے جب گلوں کی تلاش

گلاب حرف خیابانِ لب سے ملتا ہے

اتارتا ہے تھکن وہ درِ فضیلت پر

صدی کا فاصلہ جو ” ایک شب ” سے ملتا ہے

وہاں پہ تنگی و تفریق کا گزر ہی نہیں

وہاں سوالی کو اپنی طلب سے ملتا ہے

نگاہِ خامہ اسے بار بار چومتی ہے

وہ حرفِ پاک جو تیرے لقب سے ملتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]