اس ادا سے تاجدار کربلا سجدے میں ہے

ہو بہو جیسے حبیب کبریا سجدے میں ہے

تیرے نیزے اور تلواریں نہ پھیریں گی اسے

اے ستم پیشہ عبادت آشنا سجدے میں ہے

آسماں حیرت زدہ ہے اس نماز عشق پر

پشت پرحسنین ہیں شاہِ ہدیٰ سجدے میں ہے

کربلا کی ریت پر ایسا گل وَانحر کھلا

جس کے آگے ہر چمن زار رضا سجدے میں ہے

ہو رہی ہے فکر عالم ایسے سجدے پر نثار

بے وفاؤں کے علاقے میں وفا سجدے میں ہے

اس لیے اپنے ہی بحرخوں میں غوطہ زن ہوئے

جانتے تھے وہ کہ دُرِ بے بہا سجدے میں ہے

روک پائیں کیا اسے ظلم و جفا کی آندھیاں

دیکھ وَاسجدُ و اقترب کا آئِنہ سجدے میں ہے

جان دیکر بھی حفاظت میں نہیں رکھا دریغ

کربلا والوں کو تھا معلوم کیا سجدے میں ہے

کہہ رہا ہے آخری سجدہ حسین پاک کا

در حقیقت بندگی کی ارتقا سجدے میں ہے

کربلا میں کس چمن کے پھول ہیں بکھرے ہوئے

جنت الفردوس کی ساری فضا سجدے میں ہے

ریت کی چادر ہے اور ہیں خون کی گل کاریاں

کس مصلّے پر شہہ کرب و بلا سجدے میں ہے

کر دیا ثابت مرے شبیر کی ترجیح نے

دولت دارین سے بھی کچھ سوا سجدے میں ہے

سجدۂ ابن علی کا جب سے آیا ہے خیال

نورؔ میری فکر کا ہر زاویہ سجدے میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]