اس خاک سے جو ربطِ وفا کاٹ رہے ہیں

پرواز کی خواہش میں سزا کاٹ رہے ہیں

اس روزِ خوش آثار کی سچائی تو یہ ہے

اک رات سر دشتِ بلا کاٹ رہے ہیں

حبس اتنا ہے سینے میں کہ لگتا ہے مسلسل

ہم سانس کے آرے سے ہوا کاٹ رہے ہیں

بیکار کہاں بیٹھے ہیں مصروف ہیں ہم لوگ

ہم اپنی صداؤں کا گلا کاٹ رہے ہیں

خیاطِ قلم بر سر بازارِ صحافت

پوشاک کو قامت سے بڑا کاٹ رہے ہیں

ہر روز بدل دیتے ہیں دیوار پہ تحریر

خود اپنے ہی ہاتھوں کا لکھا کاٹ رہے ہیں

ٹکراتے ہیں موجوں کی طرح سنگِ ستم سے

ہر روز چٹانوں کو ذرا کاٹ رہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]