اس قدر تیر کمیں گاہِ جنوں سے نکلے

ہم بھی تھک ہار کے اب شہرِ فسوں سے نکلے

وہ بھی گویا کہ دھواں بن کے فضآء میں بکھرا

ہم بھی شعلے کی طرح اپنی حدوں سے نکلے

چوٹ پڑتی رہی نقارے پہ اک عمر تلک

صرف ہم تھے کہ جو درانہ صفوں سے نکلے

ایک پتھر کی طرح گرتے ہوئے یاد آیا

جوشِ پرواز میں ہم اپنے پروں سے نکلے

آج ناخن سے کھرچ ڈال سبھی نقش مرے

کیا خبر کون سی تہذیب تہوں سے نکلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]