جگر بچا ہی نہیں ہے تو کس کو پروا ہے
کہ چاکِ زخمِ جگر کو سیا سیا ، نہ سیا
جو کاٹتے تھے مسافت ، مسافتوں میں کٹے
سفر کا کیا ہے کسی نے کیا کیا ، نہ کیا
فریب عشق ، ترا رقص ہی قیامت ہے
فریب حسن کسی نے دیا دیا ، نہ دیا
ہر ایک تہمتِ وحشت ، ہمی سے وابستہ
ہمارا نام کسی نے لیا لیا ، نہ لیا
بس ایک قطرہِ آبِ بقاء رہی چاہت
اب ایک قطرے کا کیا ہے پیا پیا ، نہ پیا
بلائے غم کو جو سونپا گیا تھا اک شاعر
بلائے غم کی بلا سے جیا جیا ، نہ جیا