اس قدر رنگ چھپائے تو نہیں جا سکتے

ہم پسِ مرگ بھلائے تو نہیں جا سکتے

تم ہو سورج تو ذرا آؤ سوا نیزے پر

صرف اک دھوپ سے سائے تو نہیں جا سکتے

کچھ مقدر کی عنایات ہیں لازم ورنہ

اس قدر درد کمائے تو نہیں جا سکتے

کس کو معلوم کہ اس شخص پہ کیا بیت گئی

بے سبب پھول جلائے تو نہیں جا سکتے

تو بھی کچھ بامِ طلسمات کو اونچا کر لے

ہاتھ ہر روز کٹائے تو نہیں جا سکتے

دشتِ معدوم کے باسی ہیں ، بلانے والو

شہرِ امکان میں پائے تو نہیں جا سکتے

ضبط کی اور حقیقت ہے مگر چارہ گرو

زخم ہاتھوں سے مٹائے تو نہیں جا سکتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]