اس قدر سادہ مزاجی بھی مصیبت ہے جہاں

لوگ طنزاً بھی جو ہنستے ہیں ، بھلے لگتے ہیں

سجدہ گاہانِ محبت کی زیارت کیسی

ہم تو پاپوشِ محبت کے تلے لگتے ہیں

جانے کس پشت کا رشتہ ہے کہ پا کر ہم کو

درد بے ساختہ بڑھتے ہیں گلے لگتے ہیں

آؤ اس لمحہِ کمیاب میں ڈھونڈو ہم کو

غم کے آثار سرِ دست ٹلے لگتے ہیں

ہم چلو سرمہِ میدانِ مسافت ٹھہرے

نقش تیرے بھی تمازت سے جلے لگتے ہیں

کس کو معلوم کہ کس موڑ پہ ساکت ہیں ابھی

تیرے ہمراہ بظاہر جو چلے لگتے ہیں

شام اترے ہے سرِ نخلِ محبت آخر

چند سائے تھے کھجوروں کے ڈھلے لگتے ہیں

ایک لہجے کے بدلنے پہ ہی مر جاتے ہیں

عشق کے ناز بصد ناز پلے لگتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]