اس کی باتوں میں مہک، فکرمیں گیرائی ہو

اس کی باتوں میں مہک، فکر میں گیرائی ہو

جس نے کچھ روز مدینے کی ہوا کھائی ہو

ان کی نسبت سے اگر اپنی شناسائی ہو

اپنی مٹی سے عیاں شعلہ سینائی ہو

اتنا ویران، خموش اور پہن افتادہ

دشت اس آہوئے بطحا کا نہ شیدائی ہو

کتنے خورشید طلوع ہوں میری خاکستر سے

کتنے جلووں کو عطا لذت پیدائی ہو

مل ہی جائے گا تجھے دامن یوسف اک دن

دل میں پیوستہ اگر شوق زلیخائی ہو

جس کو رد کر دیں وہی چیز مردد ٹھہرے

جس کو رعنائی وہ کہہ دیں وہی رعنائی ہو

جانور پہنچیں وہاں اپنی شکایت لے کر

چوب حنانہ کی دربار میں شنوائی ہو

ان کے سینے بھی اگل دیں گے دفینے کتنے

پتھروں کو بھی اگر رخصت گویائی ہو

کتنے متضاد کوائف ہیں ترے اے زائر

شہر جاناں میں ہو تو اور شکیبائی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]