الحذر ، الاماں ، الحذر ، الاماں

شہرِ مدفون کے نوحہ گر ، الاماں

تذکرہ ایک تو شدتِ کرب کا

اور پھر شاعری کا ہنر ، الاماں

زخم ہوں عشق کے، جن کا مرہم نہیں

اور پھر زخم بھی اس قدر ، الاماں

یہ دلِ خواب گر کاش برباد ہو

پھر سے درپیش ہے اک سفر ، الاماں

رینگتی جستجو کا بدن چھل چکا

وحشت و وسعتِ بحر و بر ، الاماں

موم کے پیکرو ، خوب ہئ ، خوب ہے

رقصِ مرگِ وفا آگ پر ، الاماں

برق تھی یا کہ پروازِ شاہینِ غم

تولتا رہ گیا عشق پر ، الاماں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]