الفاظ ڈُھونڈتا ہے مِرے حسب حال کیا؟

دے گا مِرے سوا کوئی میری مثال کیا؟

جاتا عروج ، کیا مرا ، لے کر اجازتیں؟

آتا ہے پوچھ کر بھی کسی کو زوال کیا؟

حیرت کی بات یہ ہے کہ حیرت ہے آج بھی

اک مستقل ملال کا ورنہ ملال کیا؟

بوسیدگی سے خاک ہوئی جب کہ آرزو

کیا سہل رہ گیا ہے بھلا اب محال کیا؟

معدوم ہو رہے ہیں مرے نقش دن بدن

عجلت میں کٹ رہے ہیں مرے ماہ و سال کیا؟

بن کر بگڑ رہے ہیں سرِ آب ، دائرے

میرا خیال کیا ہے ، تمہارا جمال کیا ؟

کیا عرض کر سکوں گا جو بالفرض رک سکوں

سانسیں ترے حضور رہیں گی بحال کیا؟

سجدوں سے ہو سکیں گے زمینوں میں منتقل

پیشانیوں کی لوح پہ کندہ سوال کیا؟

تو نے بہت وثوق سے ماضی گِنا مجھے

اور تجھ سے انحراف کی میری مجال کیا؟

ناصر بچا ہی کیا ہے بجُز دست بستگی

زخموں سے چور ہاتھ کی بنتی ہے ڈھال کیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]