امکان سے وسیع ہوئی ، قد سے سر بلند

قسمت ہوئی جو مدحتِ سرور سے ارجمند

جاتی نہیں ہے آپ کے نوکر سے نوکری

ہوتے نہیں ہیں آپ کے بندوں کے کام بند

آیا ہے پھر بُلاوا درِ خیر بار سے

یونہی نہیں ہیں زیست کے اظہار خند خند

نسلوں کو دے رہا ہُوں سعادت کی چاشنی

ذِکرِ حبیب شِیر ہے ، مدحِ حبیب قند

محشر ہے اور تلخیٔ محشر کا سامنا

لیکن ترا غُلام نہ ترساں نہ فکر مند

کیسا کریم ہے مرے مولا کا دستِ ناز

امیدوارِ خیر ہیں خُرسند و مستَمند

کیسے موازنہ ہو غنی و گدا کے بیچ

حرفِ نیاز چند ہیں ، رنگِ عطا دو چند

ایسا نہ ہو کہ تیری نجابت پہ آئے حرف

اے دل ! یہ شہرِ ناز ہے ، رہنا ہے ہوش مند

معراج کا سفر تھا تخیّل سے ماورا

قوسین میں اُلجھ گئی تمثیل کی کمند

بے حرف حیرتوں سے ہو کیا شعر کیا شغف

مقصودؔ ! اپنا مان ہے سرکار کی پسند

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]