انتظار

تو اپنی ذات میں گُم ہے
میں خود سے بے خبر ہوں
ایک تنہا سا شجر ہوں
بہتی ندّی کے کنارے
چلچلاتی دھوپ میں
کب سے کھڑا ہوں
اپنی ہی ضد پر اڑا ہوں
تو کبھی آئے سہی
اک بار میرے پاس
تیرے دل میں ہو احساس
تو سائے بچھا دوں گا
سواگت میں تِرے
اپنی تھکن ساری بھُلا دوں گا
تجھے ٹھنڈی ہوا دوں گا
میں کب سے منتظر ہوں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

بہ فیض قائد اعظم

ہم وہ ہیں جن کی روایات سلف کے آگے چڑھتے سورج تھے نگوں قیصر و کسریٰ تھے زبوں گردش وقت سے اک ایسا زمانہ آیا ہم نگوں سار و زبوں حال و پراگندہ ہوئے سال ہا سال کی اس صورت حالات کے بعد ایک انسان اٹھا ایسا کہ جس نے بڑھ کر عزم و ہمت […]

ہمیں نابود مت کرنا

اگرچہ سوت سے تکلے نے دھاگے کو نہ کھینچا تھا مرے ریشے بنت کے مرحلے میں تھے رگیں ماں کی دریدوں سے نہ بچھڑی تھیں میں اپنے جسم سے کچھ فاصلے پر تھا مگر میرے عقیدے کا تعین کرنے والوں نے مرے مسلک کے بارے میں جو سوچا تھا اسے تجسیم کر ڈالا میں جس […]