ان فضاؤں میں جسد ہے روح کب موجود ہے
دل کو طیبہ کی فضاؤں کی ہے پیہم جستجو
روح میری روضۂ اقدس پہ ہے مدحت سرا
کررہا ہے پیش دل میرا وہ حرفِ آرزو
جس میں ہے ارضِ مدینہ میں سما جانے کاشوق
جس میں ہجرِ مصطفی کے درد کی ہے گفتگو
کاش یہ کیفیّتِ قلب و نظر قائم رہے
تادمِ آخر تمنّا ہو سکے یوں سرخ رُو
بار آور ہو شجر یوں آرزوؤں کا عزیزؔ!
دست بستہ میں رہوں ہر لمحہ اُن کے رُوبرو