ان کا ہی فکر ہو ان کا ہی ذکر ہو یہ وظیفہ رہے زندگی کے لیے

سوزِ عشق نبی میری میراث ہو کاش زندہ رہوں میں اسی کے لیے

ان کے در سے مجھے سرفرازی ملے مال و اسباب سے بے نیازی ملے

میں جیوں تو جیوں بس انہی کے لیے میں مروں تو مروں بس انہی کے لیے

رشک کرتا رہے مجھ پہ سارا جہاں مجھ سے مانگیں پنہ وقت کی آندھیاں

میں غلامِ غلامانِ احمد رہوں اس سے بڑھ کر ہے کیا آدمی کے لیے

کاش یوں ہی مرے دل کا موسم رہے میری آنکھوں کی بارش کبھی نہ تھمے

زندگی میں وہ پل بھی نہ آئے کبھی میں انھیں بھول جاؤں کسی کے لیے

ذات والا کا ہے مجھ پہ کتنا کرم میں کہاں اور کہاں مدحِ شاہِ امم

شکر تیر ا مجھے دورِ بے مہر میں ! چن لیا تو نے نعتِ نبی کے لیے

دونوں عالم کو تخلیق رب نے کیا ان کی پہچان کا ہے یہ سب سلسلہ

صرف مقصود ہوتی اگر بندگی کم ملائک نہ تھے بندگی کے لیے

رنگ و بو مجھ سے کرنے لگے گفتگو اک اجالا سا رہنے لگا چار سو

آسؔ جب سے کیا ذہن کو با وضو میں نے سرکار کی شاعری کے لیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]