ان کی ہوئی جو بات تو ٹھنڈی ہوا چلی
پڑھنے لگا میں نعت تو ٹھنڈی ہوا چلی
گلیوں میں کتنا حبس تھا گزرے جب ایک بار
وہ فخرِ کائنات تو ٹھندی ہوا چلی
دن ڈھل رہے تھے دھوپ کی حدت میں دیر سے
آئی شبِ برات تو ٹھنڈی ہوا چلی
زائر نے سنگِ روضہِ اقدس کو چُھو کے جب
چُوما خوشی سے ہاتھ تو ٹھنڈی ہوا چلی
مسکان آئی بن کے لبوں پر حضور کے
جب پیکرِ صفات تو ٹھنڈی ہوا چلی
شاخِ دعا پہ لکھا تری نعت کا جو شعر
اُگ آئے سبز پات تو ٹھنڈی ہوا چلی
ایماں کا ہاتھ تھام کے ایقاں سے جب ہوئی
وہم و گماں کو مات تو ٹھنڈی ہوا چلی