اُجلی ردائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ

آئینہ مت دکھائیے، جھوٹا کہیں گے لوگ

شاخیں گرا رہے ہیں مگر سوچتے نہیں

پھر کس شجر کی چھاؤں کو سایہ کہیں گے لوگ

واقف ہیں رہبروں سے یہ عادی سراب کے

دریا دکھائیے گا تو صحرا کہیں گے لوگ

شہرت کی روشنی میں مسلسل اُچھالئے

پتھر کو آسمان کا تارا کہیں گے لوگ

آغازِ داستاں ہے ذرا سنتے جائیے

آگے تو دیکھئے ابھی کیا کیا کہیں گے لوگ

جو کچھ برائے زیبِ بیاں کہہ رہے ہو آج

کل اُس کو داستان کا حصہ کہیں گے لوگ

لوگوں کو اختیار میں حصہ تو دیجئے

اربابِ اختیار کو اپنا کہیں گے لوگ

فردِ عمل پہ کر کے رقم اپنے فیصلے

اپنے لکھے کو بخت کا لکھا کہیں گے لوگ

شکوہ کرو نہ دیدۂ ظاہر پرست کا

جیسے دکھائی دیتے ہو ویسا کہیں گے لوگ

کس شہرِ خود فریب میں جیتے ہو تم ظہیرؔ

اپنا سمجھ رہے ہیں نہ اپنا کہیں گے لوگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]