اِک وصفِ اُلوہی ہے تری ذات میں مفقود

اِک وصفِ اُلوہی ہے تری ذات میں مفقود
اے شاہد و مشہود!
ہر وصفِ حَسَن ،اس کے سوا ، تجھ میں ہےموجود
اے شاہد و مشہود!
 
گنتی کی حدوں سے ترے اوصاف سوا ہیں
عقلوں سے ورا ہیں
اور دائِرہِ خامۂِ مخلوق ہے مَحدود
اے شاہد و مشہود
 
کیا طرفہ تعلق ہے یہاں دونوں کے مابین ،
حیران ہیں کونین
تو رب کا محمد ہے تو وہ تیرا ہے محمود
اے شاہد و مشہود
 
پہچان کے بھی تجھ کو نہیں مانے کِتابی ،
ہے نَصِّ کتابی
تو اپنے کمالات کے باعث ہوا مَحسود ،
اے شاہد و مشہود
 
حکمت ہے کہ پردے میں رہا حسنِ دل آرا ،
اے شاہ تمہارا
ورنہ تو جہاں مان ہی لیتا تمہیں معبود
اے شاہد و مشہود
 
روضہ ہے ترا کعبہ و کرسی سے بھی افضل ،
اے سیِدِ اکمل
طیبہ کے سبب اَرض ہے افلاک سے مسعود
اے شاہد و مشہود!
 
کیا اس میں رہا شک کہ ہے تو حاضر و ناظر
اے حامی و ناصِر !
جب یہ ہے مسلم کہ ہے تو شاہد و مشہود
اے شاہد و مشہود !
 
بیٹے دیے ماؤں کو تو دنیا ہے سجائی ،با شانِ خدائی
خالق نے مَنائی ہے تِری فرحتِ مولود
اے شاہد و مشہود !
 
دارین میں ٹھہرے ہیں گدا تیرے مکرم
اے شاہِ معظمؔ!
مطرود ترے در کے ہر اک در سے ہیں مَطرود
اے شاہد و مشہود !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]