آئِنہ چیز ہے کیا ، چاند نہ ہمسر ہوتا

کاش میں کوچۂ سرکار کا پتھر ہوتا

ڈال دیتا مجھے طیبہ میں مقدر میرا

زندگی میں مری یہ واقعہ اکثر ہوتا

وہ نہ ہوتے تو کہاں خلقت عالم ہوتی

وہ نہ ہوتے تو کہاں کوئی پیمبر ہوتا

میرے آقا نہ لٹاتے جو شفاعت کے گہر

ایک بے کیف سا منظر سر محشر ہوتا

چاہنے والا جو آقا کا بہاتا آنسو

ہر طرف صرف سمندر ہی سمندر ہوتا

آپ اگر چل کے دکھاتے نہ زمانے کو حضور

تو مسافر، نہ گذرگاہ، نہ رہبر ہوتا

راحتیں پاؤں مرے چومنے آتیں اے نورؔ

سایۂ گنبد خضریٰ جو میسر ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]