آئِنہ کردار ہیں خواجہ حسن

ابر گوہر بار ہیں خواجہ حسن

پھیر دے دست شفا پائیں شفا

ہم ترے بیمار ہیں خواجہ حسن

معرفت کی محفل پر نور کے

محرم اسرار ہیں خواجہ حسن

جو گیا نزدیک یہ کہنے لگا

کتنے خوشبودار ہیں خواجہ حسن

کیوں نہ اہل دل کی آنکھوں کا ہوں نور

عاشق سرکار ہیں خواجہ حسن

یہ زمیں ، یہ آسماں کے آئنے

تیرے تابعدار ہیں خواجہ حسن

روشنی پاتی ہے دنیائے صفا

نور کا مینار ہیں خواجہ حسن

شاخ پر تیری جو روشن ہوگیے

پھول وہ شہکار ہیں خواجہ حسن

آپ کے سر پر کرم کا رکھے ہاتھ

سید ابرار ہیں خواجہ حسن

دشمن سرکار آجائے تو پھر

سر بہ سر تلوار ہیں خواجہ حسن

چل رہا ہے زندگی کا قافلہ

قافلہ سالار ہیں خواجہ حسن

آج بھی رکھتے ہیں ہم سب پر نظر

آج بھی بیدار ہیں خواجہ حسن

بارگاہ ناز میں کرلو قبول

نورؔ کے اشعار ہیں خواجہ حسن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]