!آبرودار دربدر، سائیں

!آبرو دار دربدر، سائیں

!ہے کٹھن ذیست کا سفر، سائیں

مر نہ جاؤں میں بے قضا پل میں

!تجھ سے ٹھہروں جو بے خبر سائیں

اشہبِ وقت کب ٹھہرتا ہے

!عمر بھی اتنی مختصر، سائیں

ہم ادھر سے تو ہو لیے عاجز

!اب بلاؤ کبھی اُدھر، سائیں

زینؔ باقی گزارتا کیسے

!راس آیا نہیں شہر، سائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]